کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 352
’’واللّٰہ! ما کرھت منہ دیناً ولا خُلُقًا إِلَّا أَنِّي کرھت دمامتہ‘‘ (ابن جریر) ’’خدا کی قسم میں دین یا اخلاق کی کسی خرابی کے سبب سے اس کو ناپسند نہیں کرتی، بلکہ مجھے اس کی بدصورتی ناپسند ہے۔‘‘ ’’وَاللّٰہ! لَو لَا مخافۃ اللّٰه إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ بصقت فيْ وَجْھِہ‘‘ (ابن جریر) ’’خدا کی قسم! اگر خدا کا خوف نہ ہوتا تو جب وہ میرے پاس آیا تھا، اس وقت میں اس کے منہ پر تھوک دیتی۔‘‘ ’’یا رسول اللّٰه ! بي من الجمال ما تری وثابت رجل دمیم‘‘(عبدالرزاق بحوالۂ فتح الباري) ’’یا رسول اﷲ! میں جیسی خوبصورت ہوں، آپ دیکھتے ہیں اور ثابت ایک بدصورت شخص ہے۔‘‘ ’’وَمَا أعتب علیہ في خلق وَلَا دِیْن ولکني أکرہ الکفر في الإسلام‘‘ (بخاري) ’’میں اس کے دین اور اخلاق پر کوئی حرف نہیں رکھتی، مگر مجھے اسلام میں کفر کا خوف ہے۔‘‘[1]
[1] اسلام میں کفر کے خوف سے مراد یہ ہے کہ کراہت و نفرت کے باوجود اگر میں اس کے ساتھ رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ میں ان احکام کی پابند نہ رہ سکوں گی، جو شوہر کی اطاعت اور اس کی وفاداری اور عصمت و عفت کے تحفظ کے لیے اﷲ اور رسولﷺ نے دیے ہیں۔ یہ ایک مومنہ کاتصور ہے کہ حقوق اﷲ کے توڑنے کو وہ کفر سمجھتی ہے اور آج کل کے مولویوں کا تصور یہ ہے کہ اگر نماز، روزہ، حج، زکات کچھ بھی ادا نہ کیا جائے اور کھلم کھلا فسق و فجور کا ارتکاب کیا جائے، تب بھی وہ اس حالت کو ایک ایمانی حالت کہنے پر اصرار کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو جنت کی بشارتیں دیتے ہیں اور جو اسے غیر ایمانی حالت کہے، اسے خارجی ٹھہراتے ہیں۔