کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 350
خواہش کرے تو وہ اس مال کا ایک حصہ یا پورا مال واپس کر کے جدا ہوسکتی ہے، جو اس نے شوہر سے لیا تھا۔ 3 افتداء (یعنی معاوضہ دے کر رہائی حاصل کرنے) کے لیے محض فدیہ دینے والی کی خواہش کافی نہیں ہے، بلکہ اس معاملے کا اتمام اس وقت ہوتا ہے، جب کہ فدیہ لینے والا بھی راضی ہو۔ مقصد یہ ہے کہ عورت محض ایک مقدارِ مال پیش کر کے آپ سے علاحدہ نہیں ہوسکتی، بلکہ علاحدگی کے لیے ضروری ہے کہ جو مال وہ پیش کر رہی ہے، اس کو شوہر قبول کر کے طلاق دے دے۔ 4 خلع کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ عورت اپنا پورا مہر یا اس کا ایک حصہ پیش کر کے علاحدگی کا مطالبہ کرے اور مرد اس کو قبول کر کے طلاق دے دے۔ {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خلع کا فعل طرفین کی رضا مندی سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے، جو خلع کے لیے عدالتی فیصلے کو شرط قرار دیتے ہیں۔ جو معاملہ گھر کے اندر طے ہو سکتا ہے، اسلام اسے عدالت میں لے جانا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ 5 اگر عورت فدیہ پیش کرے اور مرد قبول نہ کرے تو اس صورت میں عورت کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے، جیسا کہ آیتِ مذکورہ بالا میں {فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ} کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس آیت میں {خِفْتُمْ} کا خطاب ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اولی الامر ہی کی طرف ہے، چونکہ اولی الامر کا اولین فرض تو حدود اﷲ کی حفاظت ہے، اس لیے ان پر لازم ہوگا کہ جب حدود اﷲ کے ٹوٹنے کاخوف متحقق ہوجائے تو عورت کو اس کا وہ حق دلوا دیں، جو انہی حدود کے تحفظ کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔ یہ مجمل احکام ہیں، جن میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ حدود اﷲ کے