کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 348
لیا، اس پر اﷲ اور ملائکہ اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی۔ خلع کو کھیل بنا لینے والی عورتیں منافق ہیں۔‘‘ لیکن قانون جس کا کام اشخاص کے حقوق متعین کرنا ہے، اس پہلو سے بحث نہیں کرتا، وہ جس طرح مرد کو شوہر ہونے کی حیثیت سے طلاق کا حق دیتا ہے، اسی طرح عورت کو بھی بیوی ہونے کی حیثیت سے خلع کا حق دیتا ہے، تاکہ دونوں کے لیے بوقتِ ضرورت عقدِ نکاح سے آزادی حاصل کرنا ممکن ہو، اور کوئی فریق بھی ایسی حالت میں مبتلا نہ کر دیا جائے کہ دل میں نفرت ہے، مقاصدِ نکاح پورے نہیں ہوتے، رشتۂ ازدواج ایک مصیبت بن گیا ہے، مگر جبراً ایک دوسرے کے ساتھ محض اس لیے بندھے ہوئے ہیں کہ اس گرفت سے آزاد ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ رہا یہ سوال کہ دونوں میں سے کوئی فریق اپنے حقوق کو بے جا طور پر استعمال کرے گا تو اس بارے میں قانون جہاں تک ممکن اور معقول ہے، پابندیاں عائد کر دیتا ہے، مگر حق کے بجا یا بے جا استعمال کرنے کا انحصار بڑی حد تک خود استعمال کرنے والے کے اختیارِ تمیزی اور اس کی دیانت اور خدا ترسی پر ہے۔ اس کے اور خدا کے سوا کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ محض طالبِ لذت ہے یا فی الواقع اس حق کے استعمال کی جائز حاجت رکھتا ہے۔ قانون اس کا فطری حق اُسے دینے کے بعد اس کو بے جا استعمال سے روکنے کے لیے صرف ضروری پابندیاں اس پر عائد کر سکتا ہے۔ چناں چہ طلاق کی بحث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مرد کو عورت سے علاحدگی کا حق دینے کے ساتھ اس پر متعدد قیود لگا دی گئی ہیں، مثلاً: یہ کہ جو مہر اس نے عورت کو دیا تھا، اس کا نقصان گوارا کرے، زمانۂ حیض میں طلاق نہ دے۔ تین طہروں میں ایک ایک طلاق دے۔ عورت کو زمانۂ عدت میں اپنے