کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 345
ان علمائے مرحومین نے خواتین کی مذکورہ مشکلات کا حل فقہ حنفی سے نہیں، کیوں کہ فقہ حنفی میں تو سرے سے ان کا حل ہی نہیں ہے، بلکہ دوسری فقہوں کی روشنی میں کیا۔ حالاں کہ پہلے پیرے میں انھوں نے فرمایا تھا کہ حنفی مذہب نے سب سے پہلے خواتین کی مشکلات کا احساس کیا اور اس کے لیے ایک بہترین طریقہ ’’تفویضِ طلاق‘‘ کا تجویز کیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، جس کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ طریقۂ تفویض یا دیگر حَلوں سے پہلے عہدِ خیر القرون میں بھی عورتیں ان مشکلات کا شکار ہوئی ہیں۔ اس وقت فقہ حنفی سمیت کوئی بھی فقہ نہیں تھی، ان مشکلات کو کس طرح حل کیا گیا؟ ظاہر بات ہے کہ اس دور میں انھیں صرف قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی ہی میں حل کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان مشکلات کا حل موجود ہے اور یقینا ہے۔ پھر علمائے دیوبند کا ان حلوں کو سب سے پہلے دریافت کرنے اور پیش کرنے کا دعویٰ کیوں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں جب ان تمام مشکلات کا حل الحمد ﷲ موجود ہے (جس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ میں موجود ہے) تو پھر ان کو بنیاد بنانے سے گریز کیوں؟ تیسرا سوال ہے کہ دوسری فقہوں کے بعض مسائل کو اختیار کرنے سے ایک حنفی، حنفیت سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ حنفیت ہی میں رہتا ہے تو کیا قرآن و حدیث کی نصوص سے استفادہ کرنے والا حنفی حنفیت سے خارج ہوجاتا ہے؟ وہ حنفی رہتے ہوئے کم از کم ان مسائل میں، جن کا حل فقہ حنفی میں نہیں ہے، قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں پیش کردہ حل کیوں اختیار نہیں کرتا، یا نہیں کر سکتا؟ علمائے دیوبند