کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 343
کیے بغیر ہی ہم نے درمیان میں دخل دینا شروع کر دیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اقتباس کا یہ پہلا پیرا پڑھتے ہی ہمیں یارائے ضبط نہیں رہا اور ذہن میں ایک اہم سوال پیدا ہوا کہ اسلام نے مرد کو حقِ طلاق حنفی مذہب کی تدوین سے کئی سو سال قبل دیا تھا، یہ حق صرف مرد کو دینے کی وجہ سے عورت کو جو مشکلات پیش آسکتی تھیں، وہ حنفی مذہب کی تدوین سے پہلے بھی پیش آئیں یا نہیں؟ اگر پہلے بھی پیش آئی ہیں اور یقینا آئی ہیں، خود عہدِ رسالت میں سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کی مشکل کو حل فرمایا ہے۔ وہ حل کیا تھا؟ کیا وہ حل تفویضِ طلاق کا تھا؟ یا اس خاتون کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حل تجویز نہیں فرمایا، لیکن آیندہ کے لیے یہ حل تجویز فرما دیا ہو؟ کیوں کہ یہ مشکلات تو بہرحال پیش آنی ہی آنی تھیں۔ شریعت نے مرد کو تو ’’ویٹو پاور‘‘ عطا کر دیا، لیکن اس کے نتیجے میں عورت کے لیے جو مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں، اس کا کوئی حل اسلام نے نہیں بتلایا؟ یہ ایک ناقابلِ فہم بات ہونے کے علاوہ اسلام کی ابدیت و کاملیت کے بھی منافی ہے، اﷲ تعالیٰ کے عالم ما کان وما یکون کے عقیدے کے بھی خلاف ہے۔ حنفی مذہب کو اس مشکل کے حل کا کریڈٹ دینے سے پہلے علمائے احناف کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ علمائے احناف کے لیے اس حل کو چھوڑ کر، جو عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ و تابعین میں معمول بہ رہا۔ نیا حل اختیار کرنا کیوں ضروری ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اسلام کے بتلائے ہوئے شرعی حل کو چھوڑ کر ’’ایجادِ بندہ‘‘ حل کو اختیار کرنا کیا شریعت سازی نہیں ہے؟ کیا شریعت سازی کا یہ حق کسی کو حاصل ہے؟