کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 341
ہاتھ میں ہے، تسلیم ہے، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور زوجین کی مصلحتوں کی رعایت کے پیشِ نظر قاضی بھی بہت سی صورتوں میں تفریق کا مختار بن جاتا ہے۔ یہاں بھی زوجین کے بڑھتے ہوئے شدید اور ناقابلِ حل اختلاف کو پیشِ نظر رکھ کر جب قاضی کے نمایندے اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ان دونوں میں تفریق اور علاحدگی ہوجانی چاہیے تو مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور دونوں کو اﷲ کی حدوں پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہو گا کہ یہ لگام مرد سے لے لی جائے اور قاضی کی طرف سے مقرر شدہ حَکم از خود تفریق کر دیں۔‘‘ آگے احناف کے مزید دلائل کا نہایت معقول ردّ ہے۔ اس بحث کا عنوان ہی انھوں نے یہ لکھا ہے: ’’خلع میں قاضی اور حَکم کے اختیارات‘‘ یعنی احناف جس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ موصوف نے سب سے پہلے عنوان ہی میں اس کا اثبات کر دیا ہے اور پھر مفصل بحث کی ہے، جو ان کی کتاب ’’جدید فقہی مسائل‘‘ حصہ دوم (۹۷ سے ۱۰۷) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں بھی چھپ گئی ہے۔ ہمارے سامنے وہی پاکستانی اِڈیشن ہے۔ ہم نے موصوف کی کتاب کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ اس سے یہ بات واضح ہے کہ احناف عورت کے اس حقِ خلع کو نہیں مانتے، جس کا اثبات قرآن و حدیث کی واضح تصریحات سے ہوتا ہے۔ مولانا رحمانی نے اسی حنفی موقف سے دلائل کی روشنی میں انکار کیا ہے۔