کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 339
اصل حقیقت جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے، وہ حنفی مذہب کے خلاف ہے، جیسا کہ قارئین دیکھ رہے ہیں، اس کی صراحت ان کے حلقۂ ارادت کے لیے ناقابلِ قبول ہوتی اور حنفی موقف کے بیان سے ان کے تقلیدی جمود کا اظہار ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے خاموشی ہی کو بہتر خیال فرمایا۔ 4 ایک اور حنفی مفسر کی ’’جراَتِ رندانہ‘‘ ملاحظہ ہو۔ تفسیر ’’روح القرآن‘‘ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے مہتمم محمد نعیم صاحب کی زیرِ نگرانی تحریر کردہ ہے۔ اس تفسیر میں اس کے مفسر آیتِ خلع کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’خلع میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے، اس میں عدالت یا تیسرا کوئی شخص مشورہ تو دے سکتا ہے، جبر نہیں کر سکتا، نہ عدالت کے پاس از خود یہ اختیار ہے کہ وہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر عورت کے حق میں یک طرفہ (ون سائڈ) خلع کا فیصلہ کر دے۔ اگر عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو قرآن و حدیث اور اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ناقابلِ عمل ہو گا اور اﷲ کے نزدیک ناقابلِ قبول رہے گا ....۔‘‘[1] ان صاحب کی بھی جراَت دیکھ لیجیے! کہ حنفی طریقِ خلع کو، جس میں عورت اپنا حق عدالت سے بھی وصول نہیں کر سکتی، قرآن و حدیث کا بیان کردہ خلع قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ عدالت کس لیے ہوتی ہے؟ اس کا کیا کام ہے؟ کیا عدالت میں سارے فیصلے طرفَین کی رضا مندی سے ہوتے ہیں؟ عدالت تو ہوتی ہی اس لیے ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، ایسی ہی
[1] تفسیر ’’روح القرآن‘‘ (۱/ ۵۸۸) جامعۃ البنوریۃ العالمیۃ۔