کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 335
کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا، یعنی خاوند سے علاحدگی ممکن ہی نہیں ہے۔ عورت کتنی بھی مشکلات کا شکار ہو، لیکن اگر خاوند اس کے مطالبۂ طلاق کو نہیں مانتا اور اس کو اپنے سے علاحدہ نہیں کرتا تو عورت کے لیے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ عدالت بھی وہ نہیں جا سکتی، کیوں کہ فقہ حنفی عورت کو عدالت جا کر اس کے ذریعے سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتی۔ اگر کسی عورت نے بذریعۂ عدالت طلاق کی ڈگری لے کر کسی جگہ نکاح کر لیا تو وہ نکاح متصور نہیں ہوگا، بلکہ دونوں میاں بیوی ساری عمر زنا کار شمار ہوں گے۔ علمائے احناف سے سوال ہے کہ ایسی صورت میں ایک حنفی عورت اپنے خاوند کے بیٹے کا بوسہ لے کر یا اس سے اپنا منہ کالا کرا کر اپنے آپ کو اپنے خاوند پر حرام کر لے تو وہ اس حیلے سے اپنے خاوند پر حرام ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دیا جائے۔ اگر حنفی علما یہ فتویٰ دے دیں کہ وہ عورت اس حیلے سے اپنے خاوند پر حرام نہیں ہوگی، وہ بدستور میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں تو ہم اپنی بات سے رجوع کر کے معذرت کر لیں گے کہ مولانا داود راز دہلوی کی شرح بخاری کے حوالے سے جو حیلہ بیان کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے، احناف کا یہ مسلک نہیں ہے اور اگر وہ مبینہ صورت واقعی حنفی مذہب کے مطابق ہے تو پھر اس کے بیان کرنے میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح اسے بیان کیا گیا ہے تو اس کی وضاحت کر دی جائے اور اس کا صحیح مفہوم واضح کر دیا جائے۔ تب بھی ہم نہ صرف یہ کہ اپنے قصورِ علم و فہم کا اعتراف کر لیں گے، بلکہ ہمیں نہایت خوشی ہوگی کہ یہ مکروہ حیلہ حنفی مذہب یا اس کے مسئلۂ حرمتِ مصاہرت پر متفرع بھی نہیں ہے۔ کاش ایسا ہی ہو۔ اس سے یقینا ہماری آنکھیں روشن اور دل شاد ہو گا۔