کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 333
{اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ} [الأحزاب: ۴۹] ’’جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو، پھر ان کو طلاق دے دو۔‘‘ اور فرمایا: {فَاِنْ طَلَّقَھَا} [البقرۃ: ۲۲۹] ’’پھر اگر وہ مرد اس کو طلاق دے دے۔‘‘ اس میں اﷲ تعالیٰ نے طلاق کا مالک مرد کو بنایا ہے اور عورتوں کو عدت گزارنے کا حکم دیا ہے۔ فریقِ مخالف نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: عورت کی بابت بتلاؤ، اگر وہ اپنے خاوند کو طلاق دینے کا ارادہ کرے، تو کیا وہ طلاق دے سکتی ہے؟ فریقِ مخالف نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: تم نے تو اس عورت کو طلاق کا حق دے رکھا ہے؟ اس نے کہا: کیسے؟ میں نے کہا: تمھارا خیال ہے کہ اگر عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرے (اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے) تو اس کے بیٹے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لے لے، اس طرح اس کے بیٹے کا بوسہ لینے سے وہ اپنے خاوند پر حرام ہو جائے گی۔ پس تم نے اس عورت کو (طلاق دینے کا) وہ حق دے دیا ہے، جو اﷲ نے اسے نہیں دیا اور یوں یہاں تم نے اﷲ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی، جو حکم اس آیت اور اس سے ماقبل آیات میں ہے۔‘‘[1] ’’کتاب الأم‘‘ میں امام شافعی نے (ص: ۱۵۳ سے ۱۵۷ تک) اس موضوع پر گفتگو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کا یہ مسئلہ ائمۂ متقدمین کا ہے، متأخرین کا بھی نہیں، بلکہ امام صاحب نے قال، أقول (قُلْتُ) کے انداز میں جو گفتگو کی ہے۔ ’’قَالَ‘‘ سے مراد بظاہر امام محمد رحمہ اللہ اور ’’قُلْتُ‘‘ سے
[1] کتاب الأم (۳/ ۱۵۴) طبع ۱۹۷۳ء۔