کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 325
3 توکیل (وکیل بنانے) کی اجازت: ایک تیسری اصطلاح توکیل ہے، یعنی ایک جائز کام کو خود کرنے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے کرایا جائے۔ شریعت نے اس کو جائز رکھا ہے، اس کو نیابت بھی کہا جاتا ہے۔ طلاق دینا بھی (ناگزیر حالات میں) جائز ہے اور یہ صورت خاوند کا حق ہے، تاہم خاوند اپنا یہ حقِ طلاق وکیل کے ذریعے سے استعمال کرے تو دوسرے معاملات کی طرح یہ توکیل بھی جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی آیت: {وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا} [النساء: ۳۵] ’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو۔‘‘ میں جمہور علما کے نزدیک ’’حَکَمَیْنِ‘‘ کے توکیل بالفرقہ ہی کے اختیار کا بیان ہے۔ اسی توکیل میں وہ خاص صورت بھی شامل ہے جو پنچایتی توکیل کی ضرورت پیدا کر دیتی ہے، مثلاً: ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا، حتی کہ بیوی بار بار اپنے میکے آجاتی ہے اور خاوند بار بار حسنِ سلوک کا وعدہ کر کے لے جاتا ہے، لیکن وعدے کے مطابق حسنِ سلوک نہیں کرتا، بالآخر لڑکی کے والدین تنگ آکر اس سے وعدہ لیں کہ اس دفعہ عہد کی پاسداری نہیں کی تو ہم آیندہ اس کو تمھارے پاس نہیں بھیجیں گے۔ خاوند سے پنچایت میں یہ اقرار لیا جائے۔ اس صورت میں یہ پنچایت توکیل بالفرقہ کا کردار ادا کر کے دونوں کے درمیان جدائی کروا دے۔ پنچایت یا عدالت کا یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا، جیسے خلع میں عدالت کا فیصلہ فسخِ نکاح سمجھا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی عورت کے اقربا خاوند سے تفویضِ طلاق کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ تم بیوی کو حقِ طلاق تفویض کرو، یعنی معاہدۂ حسنِ سلوک کی پاسداری نہیں کی گئی تو بیوی حقِ طلاق