کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 323
یہ طلاق، طلاقِ رجعی ہو گی یا بائنہ؟ اس کا فیصلہ خاوند کی نیت کے مطابق ہو گا۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس محمد بن عتیق نامی ایک شخص آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ سیدنا زید نے پوچھا: کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا: میں نے اپنی عورت کو اس کے معاملے کا مالک بنا دیا تھا تو اس نے مجھ سے جدائی اختیار کر لی ہے۔ سیدنا زید نے پوچھا: تونے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگا: بس اسے تقدیر ہی سمجھ لیں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو رجوع کرنا چاہتا ہے تو رجوع کر لے، یہ ایک ہی طلاق ہے اور تو رجوع کرنے کا اس عورت سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایک دوسرا قول یہ نقل ہوا ہے اور اسے سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا بھی قول بتلایا گیا ہے کہ ’’القضاء ما قضت‘‘ (عورت جو فیصلہ کرے گی، وہی فیصلہ ہوگا)، یعنی اس کے کہنے کے مطابق اسے طلاقِ رجعی یا بائنہ، ایک یا تین شمار کیا جائے گا، کیوں کہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اور ایک تیسری رائے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے، جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کر کے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔[1] ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علاحدگی کا اختیار دینا، زیرِ بحث تفویضِ طلاق سے
[1] ملاحظہ ہو شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ مدنی حفظہ اللہ کی تالیف: ’’جائزۃ الأحوذي في التعلیقات علی سنن الترمذي‘‘ رقم الحدیث (۲/ ۴۴۹۔ ۴۵۱)