کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 322
کر کے ان کو دور کرنے کی تلقین دونوں کو کریں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ بطورِ وکالت ان کے درمیان علاحدگی کا فیصلہ کر دیں، اس کو توکیل بالفرقہ کہا جاتا ہے۔ یہ وکالت کی وہ صورت ہے، جو جائز ہے۔ دوسری صورت خیارِ طلاق کی ہے، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ازواجِ مطہرات علاحدگی کو پسند کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو طلاق دے کر فارغ کر دیتے۔ تیسری صورت یہ ہے، جو بعض آثار صحابہ سے ثابت ہے، کہ خاوند علاحدگی کا معاملہ عورت کے سپرد کر دے۔ ’’أَمْرُکِ بِیَدِکِ‘‘ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں) مذکورہ سارے آثار کا تعلق اسی صورت سے ہے۔ اس جملے کی بابت فقہا کہتے ہیں اور مذکورہ آثارِ صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ اگر عورت علاحدگی اختیار نہیں کرتی اور خاوند ہی کے پاس رہنے کو اختیار کرتی ہے تو طلاق نہیں ہوگی اور اگر علاحدگی کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ طلاق شمار ہوگی۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ طلاق ایک ہوگی یا تین طلاقیں؟ ایک طلاق ہونے کی صورت میں رجعی ہوگی یا بائنہ؟ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں خاوند کی نیت کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اگر اس سے مراد اس کی ایک طلاق رجعی ہے تو یہ ایک طلاق رجعی شمار ہو گی اور خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس میں خاوند کی نیت کے فیصلہ کن ہونے نے اس کو طلاق بالکنایہ بنا دیا ہے اور یوں یہ خیارِ طلاق سے مختلف صورت ہے، کیوں کہ اسے اگر خیارِ طلاق کی وہی صورت قرار دیں، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کے سلسلے میں اختیار فرمائی تھی تو اس میں بھی طلاق کا حق مرد ہی کو حاصل تھا اور ’’أَمْرُکِ بِیَدِکِ‘‘ میں یہ اختیار عورت کو دے دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ طلاق کنائی بنے گی، اس لیے کہ