کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 321
یہ اثر نقل کر کے فاضل مفتی تحریر فرماتے ہیں: ’’یہاں پر چونکہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اور گواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘[1] لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویضِ طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق ہی کا مسئلہ بیان ہوا ہے، جس کا تعلق شادی کے بعد ہونے والے میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑے سے ہے کہ اگر اختلاف کا کوئی حل نہ نکلے تو خاوند اس کا یہی حل پیش کرے کہ تجھے اختیار ہے میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا۔ اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ عورت جو فیصلہ کرے گی، وہی نافذ ہوگا۔ علاحدگی پسند کرے گی تو طلاق ہو جائے گی، بصورتِ دیگر نہیں۔ لیکن اس طلاق میں بھی فیصلہ کن بات خاوند کی نیت ہی ہے کہ طلاقِ رجعی ہے یا بائن؟ اس اثر سے بھی رشتۂ ازدواج میں جڑنے سے پہلے ہی نکاح کے موقعے پر مرد کا اپنے اس حقِ طلاق سے دست بردار ہو کر، جو اﷲ نے اسے عطا کیا ہے، عورت کو اس کا مالک بنا دینا، کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ میاں بیوی کے درمیان عدمِ موافقت کی صورت میں ان کے اختلافات دور کرنے کے کئی طریقے ثابت ہیں۔ ایک یہ ہے جو قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے کہ ایک ثالث (حَکَم) بیوی کی طرف سے اور ایک خاوند کی طرف سے مقرر کیے جائیں، وہ دونوں کے بیانات سن کر فیصلہ کریں اور دونوں کوتاہیوں کو معلوم
[1] ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو (مئی ۲۰۱۳ء)