کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 319
گیا ہے، مثلاً: ’’المعجم الکبیر للطبراني‘‘ (۹/ ۳۷۹، رقم الحدیث: ۹۶۲۷) میں سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’إذا قال الرجل لامرأتہ: أمرک بیدک أو استفلحي بأمرک أو وھبھا لأھلھا فقبلوھا فھي واحدۃ بائنۃ‘‘[1] ’’اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔‘‘ اس اثر میں غور کریں، کیا اس کا تعلق زیرِ بحث تفویضِ طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاق کنائی) یا توکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علاحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہوجائے گی اور بقول عبداﷲ بن مسعود یہ ایک طلاقِ بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے، جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے، کیوں کہ یہ طلاق کون سی ہوگی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں تو طلاقِ بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے، یعنی خاوند خود طلاق نہ دے، بلکہ وکیل
[1] ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو (مئی ۲۰۱۳ء)