کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 317
آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا} [الأحزاب: ۲۸] ’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی طلاق دے دیتا ہوں۔‘‘ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سمیت تمام ازواجِ مطہرات کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں، لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔ یہ آیتِ تخییر کہلاتی ہے۔ اس سے تفویضِ طلاق کا اِثبات نہیں ہوتا، کیوں کہ اس میں تو ان کے مطالبات کے جواب میں انھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پر اصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں۔ قرآن کے الفاظ واضح ہیں: ’’آؤ میں تمھیں متعۂ طلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے۔ از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔