کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 313
سوتن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے، تاکہ وہ اس کا برتن الٹائے‘‘ یعنی سہولیاتِ زندگی سے محروم کر دے، جو خاوند کے ہاں اس کو میسر ہیں، کتاب الشروط (رقم الحدیث: ۲۷۲۳) کے باب ’’ما لا یجوز من الشروط في النکاح‘‘ یعنی ’’ان شرطوں کا بیان جو نکاح میں جائز نہیں۔‘‘ میں ذکر کیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شریعت کے عطا کردہ کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جائے گی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا ہے: (( وَالْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی شُرُوْطِھِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالاً أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا )) [1] ’’مسلمانوں کے لیے اپنی طے کردہ شرطوں کی پابندی ضروری ہے، سوائے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے (یعنی ایسی شرطیں کالعدم ہوں گی)۔‘‘ نکاح کے موقع پر تفویضِ طلاق کی شرط بھی شرطِ باطل ہے، جس سے مرد کا وہ حق جو اﷲ نے صرف مرد کو دیا ہے، وہ اس سے ختم ہو کر عورت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ مرد کے اس حقِ شرعی کا عورت کی طرف انتقال، حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے ہی کے مترادف ہے، جس کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس شرط سے عورت کو طلاق دینے کا حق قطعاً حاصل نہیں ہوسکتا، اس کو اس قسم کے حالات سے سابقہ پیش آئے تو وہ، شرط کے باوجود، طلاق دینے کی مجاز نہیں ہوگی، بلکہ طلاق لینے، یعنی خلع کرنے ہی کی پابند ہوگی۔ عہدِ رسالت کا ایک واقعہ اور فیصلہ کن فرمانِ رسول: اس مسئلے میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ ہماری بڑی راہنمائی
[1] جامع الترمذی، کتاب الأحکام، رقم الحدیث (۱۳۵۲)