کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 312
(( أَحَقُّ الشُّرُوْطِ أَنْ تُوْفُوْا بِہٖ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ )) [1] ’’جن شرطوں کا پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ وہ شرطیں ہیں، جن کے ذریعے سے تم شرم گاہیں حلال کرو۔‘‘ یہ حدیث اپنی جگہ بالکل صحیح ہے، لیکن اس سے مراد وہ شرطیں ہیں، جن سے مقاصدِ نکاح کو مزید موکد کرنا مقصود ہو، جیسے: خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو مہر ادا کرنے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسی مرد سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ نان و نفقہ میں کوتاہی کرے گا یا شاید حسنِ سلوک کے تقاضے پورے نہیں کرے گا یا رشتے داروں سے میل ملاپ میں ناجائز تنگ کرے گا، تو نکاح کے موقعے پر اس قسم کی شرطیں طے کر لی جائیں تو ان کا پورا کرنا مرد کے لیے ضروری ہوگا۔ یہ حدیث اسی قسم کی شرطوں تک محدود رہے گی۔ اس کے برعکس اگر خاوند یہ شرط عائد کرے کہ وہ بیوی کے نان و نفقہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، شادی کے بعد وہ ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا یا میں اس کو پردہ نہیں کرنے دوں گا، وعلیٰ ھذا القیاس، اس قسم کی ناجائز شرطیں، تو وہ کالعدم ہوں گی۔ یا عورت یہ شرط عائد کرے کہ وہ خاوند کو ہم بستری نہیں کرنے دے گی، تاکہ بچے پیدا نہ ہوں یا خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی یا مردوں کے ساتھ مخلوط ملازمت سے وہ نہیں روکے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان شرطوں کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ ناجائز شرطیں ہیں یا مقاصدِ نکاح کے منافی ہیں۔ اس لیے امام بخاری نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہ ’’عورت اپنی
[1] صحیح البخاري، کتاب الشروط، باب الشروط في المھر عند عقدۃ النکاح، رقم الحدیث (۲۷۲۱)