کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 309
مرد کے حقِ طلاق کے مقابلے میں عورت کے لیے حقِ خلع: تاہم اسلام چونکہ دینِ فطرت اور عدل و انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس دوسرے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کسی وقت عورت کو بھی مرد سے علاحدہ ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، جیسے: خاوند نامرد ہو، وہ عورت کے جنسی حقوق ادا کرنے پر قادر نہ ہو یا وہ نان و نفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو،یا قادر تو ہو، لیکن بیوی کو مہیا نہ کرتا ہو، یا بلا وجہ اس پر ظلم و ستم یا مار پیٹ سے کام لیتا ہو، یا عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی اور محسوس کرتی ہو کہ وہ اس کے ساتھ نباہ یا اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتی۔ ان صورتوں یا ان جیسی دیگر صورتوں میں عورت خاوند کو یہ پیشکش کر کے کہ تونے مجھے جو مہر اور ہدیہ وغیرہ دیا ہے، وہ میں تجھے واپس کر دیتی ہوں تو مجھے طلاق دے دے۔ اگر خاوند اس پر رضا مند ہو کر اسے طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر خاوند ایسا نہیں کرتا تو اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس قسم کی صورتوں میں خاوند سے گلو خلاصی حاصل کر لے، اس کو خلع کہتے ہیں۔ یہ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے، اس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ میں اس کے دلائل تفصیل سے مذکور ہیں۔ عورت کے اس حقِ خلع کی موجودگی میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ نکاح کے موقعے پر مرد اپنا حقِ طلاق عورت کو تفویض کرے، کیوں کہ اسلام نے عورت کے لیے بھی قانونِ خلع کی صورت میں مرد سے علاحدگی کا طریقہ بتلا دیا ہے اور عہدِ رسالت میں بعض عورتوں نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت حاکمِ وقت خلع کا فیصلہ ناپسندیدہ خاوند سے علاحدگی کی صورت میں فرمایا ہے، جس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے۔