کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 307
کی وجہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ اﷲ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمھاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے، جو اسے ناگورا ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں۔‘‘ جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حقِ طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپنا گھر اُجاڑ لیا کرتی؟ عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی وجہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبر و ضبط، تحمل اور قوتِ برداشت سے کام لیتے ہوئے عورت کے ساتھ نباہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے، کیوں کہ عورت کی یہ کمزوریاں فطری ہیں۔ کسی مرد کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ قوت کے زور سے ان کمزوریوں کو دور کر کے عورت کو سیدھا کر دے یا سیدھا رکھ سکے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَییٍٔ فِيْ الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، فَإِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہُ کَسَرْتَہُ، وَإِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ )) [1] ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت مانو، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے زیادہ کجی اوپر کی پسلی میں ہوتی ہے، پس
[1] صحیح البخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ، رقم الحدیث (۳۳۳۱)