کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 306
فیصلہ کرنے والی ہے۔ نیز عقل اور دور اندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حقِ طلاق دیے جانے کی صورت میں یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِ عنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علماے نفسیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ (مطبوعہ دارالسلام) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی ان معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں، جو وہاں عورتوں کو حقِ طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتاہے، جس کی بنا پر مرد کو تو حقِ طلاق دیا گیا ہے، لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَ رَأَیْتُ النَّارَ فَإِذَا أَکْثَرُ أَھْلِھَا النِسآئُ یَکْفُرْنَ، قِیْلَ: أَیَکْفُرْنَ بِاللّٰہِ؟ قَالَ: یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَیَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إلٰی إِحْدَاھُنَّ الدَّھْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شًیْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْراً قَطُّ )) [1] ’’میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی (اس
[1] صحیح البخاري، کتاب الإیمان، باب کفران العشیر۔۔۔، رقم الحدیث (۲۹)