کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 303
اس حلِّ شرعی کا نام لیتے ہوئے جس طرح دوسرے حنفی علما گریز کرتے ہیں، عمار صاحب بھی اس کا نام اپنی نوکِ قلم پر لانے سے مکمل پرہیز کر رہے ہیں۔ (اس کا نام بھی عن قریب آپ پڑھیں گے)۔ 2 اس گریز پائی یا پرہیز گاری کی وجہ فقہی جمود ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید عمار صاحب میں اتنا فقہی جمود نہیں ہوگا، وہ تو غامدی صاحب کے حلقۂ تلمذ میں آنے کے بعد اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ ان کی فکری ہم آہنگی میں نصوصِ صریحہ سے انحراف یا ان میں معنوی تحریف کرنے میں بھی ان کو کوئی باک نہیں ہے، لیکن تعجب ہے کہ وہ اس زیرِ بحث مسئلے میں فقہ حنفی کے تنگنائے سے نکلنے کی اپنے اندر جراَت پیدا نہیں کر سکے، جب کہ بوقتِ ضرورت عورت کا خاوند سے علاحدگی کا طریقہ قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ سے ثابت ہے، لیکن چونکہ حنفی فقہ میں اس کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اس لیے وہ اس کا ’’نیا حل‘‘ تلاش کرنے کے لیے تو ہاتھ پیر مار رہے ہیں، لیکن ان کو یہ توفیق نہیں مل رہی ہے کہ وہ اپنے حل کے بجائے، اﷲ اور رسول کا بتلایا ہوا حل تسلیم کر لیں۔ 3 عورت کے لیے مطلوب حق یا حل جب اﷲ نے خود ہی اپنے کلام قرآنِ مجید میں نازل فرما دیا ہے، اس کو چھوڑ کر اس کا متبادل حل تلاش کرنا، کیا یہ شریعت سازی اور {اَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہٖ اللّٰہُ} [الشوریٰ: ۲۱] ’’یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں، جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے، جس کی اﷲ نے اجازت نہیں دی‘‘ کا مصداق نہیں؟ 4 جو حق اﷲ نے صرف مرد کو دیا ہے، عورت کو نہیں دیا اور اس کی حکمت و مصلحت