کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 302
بعض دفعہ عورت کو ایسی ’’عملی مشکلات و مسائل‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ عورت کے لیے طلاق لینا ناگزیر ہوجائے۔ لیکن (نعوذ باﷲ) اﷲ نے اپنی لا علمی کی وجہ سے اس کا کوئی حل اس دینِ اسلام میں، جس کی کاملیت کا اعلان بھی اس نے فرمایا ہے، نہیں بتلایا۔ اب عمار صاحب سمیت حنفی علما کو اس کا حل نکالنے کی سعی کرنی پڑ رہی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں: کیا یہ دونوں باتیں صحیح ہیں: 1 اﷲ کو مستقبل میں عورت کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا علم نہیں تھا؟ 2 اس لیے دینِ اسلام میں اس کا کوئی حل بھی نہیں بتلایا گیا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو جس طرح ’’مَا کَانَ‘‘ کا علم ہے، وہ ’’مَا یَکُوْن‘‘ کا علم بھی رکھتا ہے اور اس نے دینِ اسلام کی کاملیت {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ} [المائدۃ: ۳] ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا۔‘‘ کا جو اعلان فرمایا ہے، وہ بھی بالکل درست ہے اور عمار صاحب اور دیگر ان کے ہم مسلک علما مسلمان عورت کو اس کی مشکلات سے نکالنے کے لیے نئے نئے حل تلاش کرنے میں پیچاں و غلطاں ہیں، اس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں ہے۔ الحمد ﷲ شریعتِ اسلامیہ نے جس طرح مرد کو حقِ طلاق دیا ہے اور عورت کو نہیں دیا، لیکن اس نے مطلقاً عورت کو صرف مرد کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا ہے، بلکہ ناگزیر صورت میں عورت کے لیے اپنے ناپسندیدہ خاوند، یا حقوقِ زوجیت کو ادا کرنے سے قاصر مرد سے چھٹکارا حاصل کرنے کا حق بھی عورت کو دیا ہے۔ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے علاحدگی اختیار کر سکتی ہے۔ اسلام کا بتلایا ہوا وہ حل کیا ہے؟ ہم آگے وہ حل بتلائیں گے۔