کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 299
عورت کا حصۂ میراث مرد کے حصۂ میراث سے نصف چلا آرہا ہے۔ نصف دیت میں تو سرے سے عورت کی کوئی حق تلفی ہی نہیں ہے۔ عورت کے قتل کر دیے جانے کی صورت میں جو دیت جن ورثا کو ملے گی، وہ اس کے والدین، بھائی یا خاوند وغیرہ ہی ہوں گے، عورت کا اس میں کیا نقصان ہے؟ یا اس کی بے حرمتی کا اس میں کیا پہلو ہے؟ اگر عورتوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں تو مسئلۂ میراث کی وجہ سے ہو سکتے ہیں، مسئلہ دیت کی وجہ سے نہیں۔ الحمد ﷲ! مسلمان عورتوں کے اندر مسئلۂ میراث کی وجہ سے آج تک اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس میں جو حکمت و مصلحت ہے، وہ بالکل صحیح ہے۔ اب اگر کسی ’’انگریزی خواں‘‘ عورت کے اندر ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں تو جو جواب مسئلۂ میراث کے سلسلے میں دیا جائے گا، نصف دیت کے سلسلے میں پیدا ہونے والے شبہے کا جواب بھی وہی ہو گا۔