کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 298
ہے، لیکن جہاں مسئلہ نصِ شرعی اور اجماعِ صحابہ کا ہو اور اقلیت و اکثریت سے قطع نظر پوری امت کے علما و فقہا کا بھی ہو، وہاں یہ بحث جچتی نہیں۔ یہاں پوری امت کے (صحابہ سمیت) فقہا کو بے دانش سمجھنے کے بجائے اگر آج کل کے متجددین کی دانشِ افرنگی ہی کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَجْمَعُ أُمَّتِيْ عََلٰی ضَلَالۃٍ )) [1] ’’اﷲ تعالیٰ میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔‘‘ 2 عورتوں کے حقوق و فرائض بھی آج سے چودہ سو سال پہلے متعین کر دیے گئے ہیں اور آج بھی جب تک عورتوں کو ان حقوق و فرائض کا پابند نہیں بنایا جائے گا، اصلاحِ احوال کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس لیے مسئلہ عورت کے حقوق و فرائض کا حل کرنا نہیں ہے، بلکہ اسے اسلام کے متعین کردہ حقوق و فرائض کا پابند بنانا اور اس کے مطابق عمل در آمد کرانا ہے۔ 3 ’’حرفیت پسندی‘‘ سے الگ ہو کر سوچنے کی دعوت دینا، انتہائی گمراہی کا راستہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عورت کو نصف میراث کے بجائے مرد کے مساوی حصہ ملنا چاہیے۔ ایسے ’’اجتہاد‘‘ کے مقابلے میں ’’حرفیت پسندی‘‘ قابلِ تعریف ہے، جس میں نصوصِ شریعت سے انحراف نہ ہو۔ 4 جہاں تک اس اندیشے کا تعلق ہے کہ عورت کی نصف دیت پر اصرار کرنے کی وجہ سے عورتوں کے اندر اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے تو یہ بات بھی غلط ہے، کیوں کہ چودہ سو سال سے اسلام میں
[1] سنن الترمذي، کتاب الفتن، رقم الحدیث (۲۱۶۷)