کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 296
کارخانوں اور دفتروں میں ملازمت کرے اور معاشی تگ و دَو میں حصہ لے اور عورت گھر کی چار دیواری کے اندر امورِ خانہ داری کے فرائض انجام دے۔ یہ الگ الگ دائرۂ کار ان فطری صلاحیتوں کے مطابق ہے، جن کی وجہ سے مرد و عورت کی تخلیق ہوئی ہے اور اسی میں ان کی عزت و تکریم ہے۔ اسی بنیاد پر میراث میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہے، کیوں کہ معاشی کفالت کے لیے مرد کو مال و دولت کی جتنی ضرورت ہے، عورت کو نہیں۔ اسلام کا یہ اصول قیامت تک کے لیے ہے، اس میں تبدیلی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اب چاہے معاملہ کتنا ہی برعکس ہوجائے اور عورتیں مردوں کے دوش بدوش معاشی دوڑ میں خواہ کتنی ہی سرگرمی سے حصہ لیں اور کارخانے اور دفاتر چاہے عورتوں کے دم قدم سے کتنے ہی پر رونق ہوجائیں، لیکن میراث میں عورت کا حصہ پھر بھی مرد کے حصے سے نصف ہی رہے گا، کیوں کہ معاشی سرگرمیوں میں عورتوں کی شرکت ہی اصولی طور پر سرے سے غلط ہے اور اسلام کے خلاف ہے۔ (بعض انفرادی صورتوں میں بطورِ مجبوری عورتوں کی ملازمت الگ بات ہے، جس کی گنجایش محدود دائرے میں موجود ہے) عورت کی نصف دیت میں وہی علت ہے، جو میراث کے نصف حصے میں ہے، یعنی چونکہ مرد کے قتل کیے جانے کی صورت میں ایک پورا خاندان اپنے کفیل سے محروم ہوجاتا ہے، اس لیے خاندان کی کفالت کے نقطۂ نظر سے اس کی پوری دیت ضروری ہے، جب کہ عورت کے قتل کیے جانے کی صورت میں ایسی مالی مشکل پیش نہیں آتی، اس لیے اس کی نصف دیت قطعاً غیر معقول نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں نصف دیت کے پیچھے قطعاً یہ جذبہ کار فرما نہیں ہے کہ، نعوذ باللّٰه ، عورت حقیر ہے یا وہ نصف انسان ہے، اس لیے اس کی دیت بھی