کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 293
نظریاتی کونسل کی رائے کا حوالہ؟ ’’میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو‘‘: عمار صاحب کا اس سلسلے کا پانچواں اور آخری پیرا ملاحظہ ہو، ان کے ترکش کا یہ تیر بھی رائیگاں ہی گیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’5۔پاکستان میں بھی قصاص و دیت کا جو قانون نافذ کیا گیا ہے، اس میں مرد و عورت کی دیت میں فرق نہیں کیا گیا، جب کہ یہ قانون تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کی مشاورت کے بعد نافذ کیا گیا ہے اور اسے مذہبی جماعتوں کی عمومی تائید حاصل ہے۔‘‘[1] عمار صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ کیا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ’’استنادی حیثیت‘‘ کے قائل ہیں؟ یعنی اس کی رائے ان کے نزدیک حتمی اور قطعی ہے، جس سے اختلاف کی گنجایش نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے، یعنی ان کے نزدیک کونسل کی رائے تنقید سے بالا ہے تو پھر انھوں نے کونسل کی اس رائے کو اپنے نقد و نظر کا موضوع کیوں بنایا ہے جس میں اس نے ڈی، این، اے کی رپورٹ کو زنا کے چار عینی گواہوں کے متبادل ماننے سے انکار کیا ہے؟ اگر ان کے نزدیک کونسل کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تو پھر نصف دیت والی رائے میں ان کے موقف کا حوالہ کیوںکر معتبر مانا جا سکتا ہے؟ یا عمار صاحب کے لیے اس کے حوالے کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ ’’میٹھا میٹھا ہَپ اور کڑوا کڑوا تُھو‘‘ کا مصداق نہیں؟ کیسی عجیب بات ہے کہ کونسل کی وہ رائے جو ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ کے بارے میں اس نے دی ہے، جو عصرِ حاضر کے تمام علمائے اسلام کی
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۰)