کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 292
’’اکثر مجتہدین اس بات پر متفق ہیں کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا اور اسے کوڑوں کی سزا نہیں دی جائے گی اور انھوں نے کئی احادیث سے استدلال کیا ہے۔‘‘ اس کے بعد عہدِ رسالت کے رجم کے واقعات اور احادیث و آثار اس امر کے اثبات میں پیش کیے ہیں کہ زانی محصن کو صرف سنگسار کیا گیا ہے، ان کو کوڑے نہیں مارے گئے۔[1] اس تفصیل سے تین باتیں واضح ہیں: 1 امام رازی عمومِ قرآن کی حدیث کے ذریعے سے تخصیص کے قائل ہیں، چاہے وہ متواتر ہو یا آحاد۔ اس لیے ان کے اصم کی نصف دیت کے انکار میں ان کے عموم کی دلیل بیان کرنے سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ امام رازی کے نزدیک اس کی اس ’’دلیل‘‘ میں کوئی وزن ہے یا ان کا رجحان اس بوگس دلیل کی وجہ سے اس کی طرف ہوگیا ہے یا وہ اس کے موقف کو غور و فکر کے قابل سمجھتے ہیں۔ 2 قرآن کی ’’عظمت‘‘ کے نام پر احادیث کا انکار، خوارج کا شیوہ رہا ہے، علمائے اسلام اس کے کبھی قائل نہیں رہے۔ 3 حدِ رجم کا انکار بھی صرف خوارج نے کیا ہے اور ان کے ’’دلائل‘‘ بھی بعینہٖ وہی ہیں، جس کی جگالی آج کل غامدی، اصلاحی، فراہی اور ان کے ریزہ چین کر رہے ہیں۔ فتشابھت قلوبھم۔ بہر حال اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مذکورہ دو منحرفین کی بے بنیاد انحرافی رائے سے امت کے اجماعی موقف پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔
[1] التفسیر الکبیر (۸/ ۳۰۵۔ ۳۰۶)