کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 29
(حدیث اور سنت) کا استعمال علومِ نبوت کے لیے عام ہے اور اس میں اتنا خصوص پیدا ہوگیا ہے کہ جب بھی حدیث یا سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات ہی مراد ہوتے ہیں، اس مفہوم کے علاوہ کسی اور طرف ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا۔ ائمۂ سلف اور محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک بالاتفاق حدیث اور سنت مترادف الفاظ ہیں، ان کے درمیان کسی نے معنی اور منطوق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ حدیثِ رسول سے انحراف کا آغاز: اس دور کے جن لوگوں نے حدیثِ رسول کی تشریعی حیثیت کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ اس کے ماخذِ شریعت ہونے کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم سعی کر رہے ہیں، انھوں نے حدیث اور سنت کے مفہوم میں فرق کیا ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر ان کے لیے حدیثِ رسول سے واضح الفاظ میں انکار کرنا ممکن نہیں۔ وہ چاہتے ہیں یا اپنے زعمِ باطل میں مسلمان عوام کو اس مغالطے میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں، دراں حالیکہ ان کی ساری کاوشوں کا محور و مرکز حدیثِ رسول اور اطاعتِ رسول کا انکار ہے۔ ان کے خیال میں سنت سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و عادات ہیں اور حدیث سے مراد اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بعض لوگوں نے اس سے بھی تجاوز کر کے یہ کہا کہ آپ کے اعمال و عادات عرب کے ماحول کی پیداوار تھیں، اس لیے ان کا اتباع ضروری نہیں، صرف آپ کے اقوال قابلِ اتباع ہیں۔ ایک تیسرے گروہ نے اس کے برعکس یہ کہا کہ آپ کے اقوال پر عمل ضروری نہیں، جسے وہ حدیث سے تعبیر کرتے ہیں، تاہم آپ کے اعمالِ مستمرہ