کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 289
دیت، مرد کی دیت کے مثل ہے۔ فقہا کی دلیل ہے کہ سیدنا علی، عمر اور ابن مسعود نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ نیز اس لیے بھی کہ میراث اور شہادت میں عورت مرد سے نصف ہے، اسی طرح دیت میں ہے، اور اصم کی دلیل اﷲ تعالیٰ کا یہ قول ہے: {وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖٓ} [النساء: ۹۲] ’’اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو ایک مومن گردن آزاد کرنا اور دیت دینا ہے، جو اس کے گھر والوں کے حوالے کی گئی ہو۔‘‘ اور اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے حکم میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں تو ضروری ہے کہ اس حکم میں دونوں برابر ہوں، واللّٰه أعلم‘‘ امام رازی کے ان کی ’’دلیل‘‘ پیش کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ ان دونوں منحرفین کی دلیل بھی بعینہٖ وہی ہے، جو غامدی گروہ سمیت تمام منکرینِ حدیث کی ہے اور وہ ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’تبیینِ قرآنی‘‘ کے ’’منصبِ رسالت‘‘ کا انکار، اور اس کا نتیجہ اُن احادیثِ صحیحہ و صریحہ کا انکار ہے، جن سے قرآن کے عموم کی تخصیص ثابت ہوتی ہے۔ حدِ رجم کے انکار کی بنیاد بھی منصبِ رسالت کا اور احادیث سے قرآن کے عموم کی تخصیص کا انکار ہی ہے۔ ابوبکر اصم نے بھی اسی انحرافی موقف کو اختیار کرتے ہوئے قرآن کے عموم سے استدلال کیا ہے، جس کی وجہ سے عورت کی دیت کے نصف ہونے والی حدیث اور اس پر اجماعِ صحابہ کا اس نے انکار کیا ہے۔ ان دونوں منحرفین کی اس باہم موافقت اور ہم آہنگی پر عمار صاحب سمیت غامدی گروہ بلاشبہہ یہ تو کہہ سکتے ہیں ع متفق گردید رائے بو علی با رائے من