کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 288
حاضر کا ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ کی شہادت یا عدمِ شہادت کا مسئلہ ہے۔ یہ بالکل ایک جدید مسئلہ ہے۔ عرب و عجم کے تمام علما نے اس کو ایک قرینے اور ضمنی شہادت کے طور پر ماننے کا فتویٰ تو دیا ہے، لیکن اسے زنا کے چار عینی گواہ کا متبادل ماننے سے انکار کیا ہے، کیوں کہ اس سے نصوصِ قرآنی کا، جن میں چار گواہوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا گیا ہے، انکار لازم آتا ہے۔ یہ عصرِ حاضر کا ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور علمائے اسلام نے نصوصِ شریعت کی روشنی میں اس کا متفقہ فیصلہ کر دیا ہے۔ اس فیصلے یا فتوے کو یقینا اجماع قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن عمار صاحب سمیت یہ فراہی یا غامدی گروہ اس اجماع کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اس سے برملا اختلاف کا اظہار کر رہا ہے۔ ظاہر بات ہے اس منحرف گروہ کے اختلاف سے علمائے اسلام کے ایک اجماعی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا، کیوں کہ علمائے اسلام کا فیصلہ قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ پر مبنی ہے اور دوسرا موقف نصوصِ شریعت کے انکار یا ان سے انحراف پر مبنی ہے۔ اس لیے اول تو وہ سرے سے قابلِ ذکر ہی نہیں ہے اور اگر اس کا کوئی ذکر بھی کر دے گا تو اس سے اجماعی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تفسیر کبیر (امام رازی) کے حوالے کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اس میں البتہ یہ اضافہ ہے کہ اس میں جہاں فقہا کے موقف کی دلیل پیش کی گئی ہے، وہاں دوسرے موقف کی بھی ’’دلیل‘‘ امام رازی نے نقل کر دی ہے۔ اس عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’آٹھواں مسئلہ: اکثر فقہا کا مذہب ہے کہ عورت کی دیت (قتلِ خطا میں) مرد کی دیت سے آدھی ہے اور اصم اور ابن عطیہ نے (عطیہ، کتابت کی غلطی ہے، سب نے عُلَیّہ لکھا ہے) کہا ہے کہ عورت کی