کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 286
سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اسی طرح اسے اجتہادی معاملہ قرار دینا بھی یکسر غلط ہے۔ عمار صاحب کے مذکورہ اقتباس یا پیرے میں تین مغالطے یا مغالطہ انگیزیاں ہیں۔ ہماری اس وضاحت سے ۔ إن شاء اللّٰه ۔ اس طُرۂ پُر پیچ و خم کے سارے پیچ و خم نکل گئے ہیں۔ فللّٰہ الحمد۔ اجماعی موقف میں دراڑ ڈالنے کی ناکام سعی: عمار صاحب کا چوتھا پیرا ملاحظہ فرمائیں، جس میں انھوں نے امت کے اس اجماعی مسئلے کو بھی مشکوک ٹھہرانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’4۔ عورت کی دیت کے نصف ہونے کا موقف بھی فقہا کا اجماعی موقف نہیں، کیوں کہ صدرِ اول کے دو معروف اصحابِ علم ابوبکر الاصم اور ابن علیہ اس کے قائل نہیں اور فقہ حنبلی کی کشاف القناع میں اسی بنیاد پر اس مسئلے پر اجماع کے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح امام رازی نے اپنی تفسیر میں مذکورہ نقطۂ نظر کو جس اسلوب میں بیان کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے حق میں رجحان رکھتے یا کم از کم اسے قابلِ غور ضرور سمجھتے ہیں۔‘‘[1] عزیز موصوف کی اس گوہر افشانی سے اجماع کی حیثیت متأثر نہیں ہوتی، اس لیے کہ یہ دونوں شخصیتیں جیسی کچھ ہیں، ان کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔ اسی لیے علما نے ان کی رائے کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ اس کو ’’شاذ‘‘ قرار دیا ہے، یعنی امت کے اجماعی موقف سے بالکل ہٹی ہوئی منفرد رائے، جو اس راہ کے راہرَوْ کو جہنم میں لے جانے والی بات ہے۔ حدیث میں ہے: (( مَنْ شَذَّ شُذَّ فِيْ النَّارِ ))
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۰)