کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 281
صرف فقہائے امت ہی کا اتفاق و اجماع نہیں ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا بھی اجماع ہے۔ چناں چہ ’’فقہ السنۃ‘‘ کے فاضل مصنف سید سابق مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ودیۃ المرأۃ، إذا قتلت خطأ، نصف دیۃ الرجل وکذلک دیۃ أطرافھا، وجراحاتھا علی النصف من دیۃ الرجل وجراحاتہ۔ وإلیٰ ھذا ذھب أکثر أھل العلم۔ فقد روي عن عمر رضی اللّٰه عنہ ، وعلي کرم اللّٰه وجھہ، وابن مسعود رضی اللّٰه عنہ ، و زید بن ثابت}، أنھم قالوا في دیۃ المرأۃ: أنھا علی النصف من دیۃ الرجل، ولم ینقل أنہ أنکر علیھم أحد فیکون إجماعاً، ولأن المرأۃ في میراثھا وشھادتھا علی النصف من الرجل‘‘[1] اہلِ علم کے لیے اس ترجمے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں بھی مرد و عورت کی دیت میں فرق کو دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں عقلی طور پر صحیح قرار دینے کے علاوہ اس میں اجماعِ صحابہ کی بھی وضاحت ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ عمار صاحب کا یہ دعویٰ کہ ’’یہ فرق کسی مستند روایت سے ثابت نہیں‘‘ صحیح نہیں ہے۔ روایات کے ضعف کے باوجود شواہد کی بنیاد پر ان روایات کو قابلِ حجت تسلیم کیا گیا ہے، اسی لیے تمام فقہا کا اتفاق اور اہلِ علم کا اجماع ہے۔ آخر کسی دلیل شرعی کے بغیر یہ اتفاق و اجماع کیوں کر ممکن ہے؟ علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر صحابۂ کرام کا اجماع ہے، جس سے انحراف کفر و الحاد ہے، کیوں کہ یہ {وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی} [النساء: ۱۱۵] کا مصداق بننا ہے۔
[1] فقہ السنۃ (۲/ ۴۷۵۔ ۴۷۶، طبع ۱۹۸۳ء)