کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 279
دوسرا ابن عُلَیّہ ہے۔ اس نام سے دو شخص معروف ہیں، اسماعیل بن علیہ اور ابراہیم بن علیہ۔ بالترتیب یہ دونوں باپ بیٹے ہیں۔ تاہم باپ (اسماعیل) کا شمار محدثین میں ہوتا ہے، البتہ بیٹے ابراہیم بن عُلیّہ کا اصحابِ تراجم نے اچھے انداز سے ذکر نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے ابوبکر الاصم کے غلمان (غلام اور شاگرد) میں سے قرار دیا ہے۔ امام شافعی نے اس کے بارے میں یہاں تک کہا ہے: ’’ضَالٌّ یُضِلُّ النَّاسَ‘‘[1] ’’خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے۔‘‘ ایسے دو شخصوں کی رائے سے، جن کی امت میں کوئی علمی اہمیت نہیں، فقہا کا اتفاق اور امت کا اجماع کس طرح مجروح اور مشکوک ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ علما نے ان دونوں کی رائے کو ’’شاذ‘‘ قرار دیا ہے اور جس حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے، علما نے نصف دیت والی روایات کو اس کا مخصص اور مفسر قرار دے کر اس استدلال کو رد کر دیا ہے، چناں چہ فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ’’المغني لابن قدامۃ‘‘ میں ہے: ’’قال ابن المنذر وابن عبد البر: أجمع أھل العلم أن دیۃ المرأۃ نصف دیۃ الرجل، وحکی غیرھما عن ابن علیّۃ والأصم أنھما قالا: دیتھا کدیۃ الرجل، لقولہ علیہ السلام : (( في النفس المؤمنۃ مائۃ من الإبل )) وھذا قول شاذٌّ یخالف إجماع الصحابۃ وسنۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فإن في کتاب عمرو بن حزم دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل، وھي أخص
[1] تاریخ بغداد (۶/ ۲۰۔ ۲۲)