کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 273
نصِ حدیث سے اس کا استنباط کیا، جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے توقف اور ابوبکر سے اختلاف کیا، جس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دلیل بھی پیش کی اور اس پر عمل درآمد کے لیے غیر متزلزل عزم و ارادہ کا اظہار بھی کیا: ’’وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ‘‘ ’’اﷲ کی قسم! میں ان سے ضرور قتال کروں گا، جو نماز اور زکات کے درمیان فرق کرے گا۔‘‘ یعنی نماز تو پڑھے گا، لیکن زکات دینے سے انکار کرے گا۔ اس کی دلیل بیان فرمائی: ’’فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَال، وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِيْ عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَھَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَقَاتَلْتُ عَلیٰ مَنْعِھَا‘‘ ’’اس لیے کہ زکات وہ حق ہے، جو اﷲ نے (صاحبِ مال کے) مال میں (غربا و مساکین کا) رکھا ہے۔ اﷲ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے بکری کا وہ بچہ بھی دینے سے انکار کریں گے، جو وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے قتال کروں گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ دلیل آئی تو وہ مطمئن ہوگئے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف سے نہ صرف اتفاق کیا، بلکہ فرمایا: ’’فَوَ اللّٰہِ! مَا ھُو إِلَّا أَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَ أَبيْ بَکْر رضی اللّٰه عنہ فَعَرفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ‘‘[1] ’’اﷲ کی قسم! اﷲ نے ابوبکر کا سینہ کھول دیا (اﷲ نے ان کو صحیح بات سُجھا دی) تو میں بھی سمجھ گیا کہ یہی بات (ابوبکر کا موقف) حق ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۴۰۰)