کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 258
الحدیث۔۔۔‘‘ (ص: ۲۰۔ ۲۱) مولانا بنوری مشہور مصری عالم علامہ زاہد الکوثری کی بابت لکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اس موضوع پر کتاب لکھی ہے، اس کتاب سے بھی متعدد اقتباسات مولانا بنوری نے اپنے مقدمے میں نقل کیے ہیں۔ اس مسئلے میں امت کا جو اجماع ہے، اس ضمن میں اجماعی حیثیت و اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا بنوری نے علامہ کوثری کا ایک اقتباس نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’إن حجیۃ الإجماع مما اتفق علیہ فقھاء الأمۃ جمیعا، وعدّوہ ثالث الأدلۃ حتی إن الظاھریۃ علی بُعدھم عن الفقہ یعترفون بحجیۃ إجماع الصحابۃ، بل إطلاق کثیر من العلماء القول بأن مخالف الإجماع کافر۔۔۔ وقد دل الدلیل علی أن ھذہ الأمۃ محفوظۃ من الخطأ وأنھم عدول شھداء علی الناس، وأنھم خیر أمۃ أخرجت للناس یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر، وأن من تابعھم تابع سبیل من أناب ومن خالفھم سلک سبیل غیر المؤمنین، وناھض علماء الدین إلی أن قال: فإذا ذکر أھل الإجماع فإنما یریدون بہ إجماع من بلغوا رتبۃ الاجتھاد من بین العلماء باعترافھم مع ورع یجحزھم عن محارم أمتہ لیمکن بقاء ہ بین الشھداء علی الناس، فمن لم یبلغ مرتبۃ الاجتھاد باعتراف العلماء لہ بذلک فھو خارج من أن یعتد بکلامہ في الإجماع، ولو کان من الصالحین الورعین الخ ۔۔۔ ولیس معنی الإجماع أن یدون في کل مسئلۃ مجلدات،