کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 256
ما شاء اﷲ عمار صاحب کی یا ان کے ’’محققین‘‘ کی کیا خوب تحقیق اور کیا خوب انصاف ہے؟ دوسری کتاب ہے: ’’عقیدۃ الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ اس کتاب کی تعلیقات بھی مولانا کشمیری ہی نے لکھی ہیں، اس کا نام ہے: ’’تحیۃ الإسلام‘‘ اس کتاب پر مقدمہ لکھا ہے مولانا کشمیری کے سب سے بڑے علمی وارث مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے جس کا نام ہے ’’نزل أھل الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ ہم اس مقدمے سے اور اصل کتاب سے کچھ اقتباسات، بغیر اردو ترجمے کے، نقل کرتے ہیں، تاکہ کم از کم اہلِ علم کے سامنے تو مسئلے کی اصل اہمیت و حیثیت واضح اور اس کے انکار کی شناعت و قباحت، بلکہ اس کا کفر و بطلان اجاگر ہوجائے۔ مولانا بنوری مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’ھذا الکتاب: عقیدۃ الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام، وسماہ الشیخ أیضاً: ’’حیاۃ المسیح بمتن القرآن والحدیث الصحیح‘‘ وأفادني بأن موضوع کتابي ھذا إثبات حیاتہ بأدلۃ القرآن الکریم، وإنما جاء ت الأحادیث والآثار تبعاً لإیضاح الآیات، لم یکن الغرض استیفاء الأحادیث والروایات في الکتاب، فلا یظن أن الشیخ استوفیٰ الآیات والروایات جمیعاً، کما یظنہ کثیر من أھل العلم۔ وإنما استقصٰی الروایات في رسالۃ ’’التصریح‘‘ کما سبق۔ وإنما الغرض الوحید شرح آیات من التنزیل العزیز ما یتعلق بحیاتہ۔۔۔‘‘ (ص: ۱۲۔ ۱۳)