کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 253
گروہ کے ’’محققین‘‘ نے سراغ لگایا ہے تو کیا وہ متواتر ہیں اور مرفوع روایات سے فائق تر ہیں؟ 6 صحابہ کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ اس عقیدے کو قطعی الثبوت اور متواتر روایات کے طور پر نہیں جانتے تھے، اس کی بنیاد کیا ہے؟ حدیثی روایات سے تو ان کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس ثابت ہے۔ فرمانِ رسول ان کے سامنے آجانے پر وہ تو اسے بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے، ان کی رائے حدیث کے خلاف ہوتی تو اپنی رائے سے فوراً رجوع کر لیتے تھے۔ علاوہ ازیں ’’قطعی الثبوت‘‘ اور ’’ظنی الثبوت‘‘ اور ’’تواتر‘‘ و ’’آحاد‘‘ وغیرہ اصطلاحات کا کوئی وجود عہدِ صحابہ میں ملتا ہے؟ یہ تو بعد کے ان ’’فقہا‘‘ کی ’’ایجادات‘‘ ہیں، جو فقہی جمود میں مبتلا تھے اور ان کو بعض اپنے فقہی مسائل میں احادیث سے جان چھڑانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو احادیث کو کنڈم کرنے کے لیے یہ اصول اور اسی انداز کے دیگر بعض اصول گھڑے، جن سے ان کے لیے احادیث سے انحراف کا راستہ آسان ہوگیا۔ محدثین کی اصطلاحاتِ حدیث میں تواتر اور آحاد کی اصطلاح یقینا ملتی ہے، لیکن ان کے ہاں اس سے مقصود صرف احادیث کی درجہ بندی ہے۔ متواتر روایت درجے میں سب سے بلند ہے اور خبرِ واحد درجے میں اس سے کم تر۔ محدثین کا موقف کبھی یہ نہیں رہا کہ صحیح، مرفوع، متصل، خبرِ واحد ظنی الثبوت ہے یا اس سے قطعی علم حاصل نہیں ہوتا یا وہ احکام و عقائد میں دلیل نہیں بن سکتی یا اس سے عمومِ قرآن کی تخصیص نہیں ہوسکتی وغیرہ وغیرہ۔ اگر خبرِ آحاد کا وہ مفہوم ان کے نزدیک ہوتا، جو بعض فقہا نے لیا ہے یا آج کل اس میں مزید وسعت پیدا کر کے اخبارِ آحاد کو یکسر قابلِ رد قرار دیا جا رہا