کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 251
وحیِ الٰہی پر مبنی پیش گوئی کو ایمانیات سے خارج کرنے کی دلیل کیا ہے؟ وہ دو ہی ہوسکتی ہیں، اس سے متعلقہ روایات قابلِ اعتماد نہ ہوں یا پھر نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی نجومی کی پیش گوئی ہو۔ روایات کو آپ مستند اور قابلِ اعتماد مان چکے ہیں، لہٰذا یہ دلیل آپ پیش نہیں کر سکتے۔ اسے آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیش گوئی بھی تسلیم کر چکے ہیں، لہٰذا اس کے وقوع میں شک ایمان کے منافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پورا اقتباس یا فلسفہ آرائی یا چناں چنیں ؎ بک گیا ہوں جنوں میں کیا کچھ خدا کرے کچھ نہ سمجھے کوئی کا آئینہ دار ہے۔ اب پیرا نمبر (۴) ملاحظہ ہو، اس میں انکارِ حدیث کا سب سے بڑا ہتھکنڈا ’’اخبارِ آحاد‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اس مسلّمہ اسلامی عقیدے کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم سعی کی گئی ہے: ’’سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمدِ ثانی کی روایات محققین کے نزدیک اپنی اصل کے لحاظ سے اخبارِ آحاد ہیں اور اس دائرے میں آتی ہیں، جہاں روایات کی تحقیق و تفتیش کے ضمن میں باہم مخالف قرائن کی روشنی میں اشتباہ کا لاحق ہوجانا ممکن ہے۔ بعض صحابہ کے آثار سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے قطعی الثبوت اور متواتر روایات کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ اس وجہ سے کوئی صاحبِ علم اگر ان روایات کے استناد سے اختلاف کریں تو یہ ایک علمی نوعیت کا اختلاف ہوگا، جس پر دلائل کی روشنی میں شائستگی سے ہی تنقید کرنی چاہیے اور اس مسئلے کو