کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 250
کے واقعات میں سے کسی واقعے کے رونما ہونے یا نہ ہونے پر اسلام کے دینیاتی نظام کا ہرگز مدار نہیں اور بالفرض ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہ ہو تو اسلام کے کسی اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ عمار صاحب نے اس عقیدۂ نزولِ مسیح کے بارے میں پہلے تو یہ فرمایا کہ ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان رکھنے کا تقاضا ہے۔‘‘ اور اب آپ ایک تو یہ فرما رہے ہیں کہ یہ سرے سے ایمانیات اور عقیدے کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ دوسرے، بالفرض اگر آمدِ ثانی کا یہ واقعہ رونما ہی نہیں ہوتا تو اس سے اسلام کے اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت کس طرح صحیح ہوسکتی ہیں؟ کیا ان میں باہم تضاد نہیں؟ جس چیز پر یقین رکھنا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تقاضا ہو، کیا وہ چیز ایسی مشکوک بھی ہوسکتی ہے کہ اس کا وقوع اور عدمِ وقوع برابر ہو؟ پھر وہ ایمان والی بات تو نہ ہوئی، وہ تو نجومی کی اٹکل پچو پیش گوئی ہوئی۔ اور اگر وہ ایمان والی بات ہے (جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے) تو وہ نبی کی پیش گوئی ہوئی اور نبی کی پیش گوئی کی بنیاد، مستقبل کا علم نہیں، کیوں کہ وہ تو غیب ہے اور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی نہیں تھے، پھر اس پیش گوئی کی بنیاد وحیِ الٰہی کے سوا کوئی اور ہو سکتی ہے؟ وہ بتلائیں وہ کیا ہے؟ اگر وحیِ الٰہی ہی ہے اور یقینا وحی ہے تو پھر وقوع اور عدمِ وقوع، دونوں امکان کس طرح صحیح ہوسکتے ہیں؟ اس کا وقوع اور ظہور تو یقینی ہے اور اس اعتبار سے اس کی صداقت پر یقین رکھنا ایمانیات اور عقیدے کا جزو کیوں نہیں ہوگا؟