کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 249
علاوہ ازیں احادیث کے بالمعنی نقل ہونے اور نقل کرنے والے راویوں کے سوئے فہم کا شکار ہونے کی دہائی کے بعد کیا سارا ذخیرۂ حدیث، دفترِ بے معنی اور غرق مئے ناب اولیٰ کا مصداق نہیں بن جاتا؟ کیا روایات بالمعنی نقل ہونے کے باوجود محدثین نے ان کو قابلِ اعتماد اور مستند نہیں مانا ہے؟ اور خود آپ نے نمبر (1) اقتباس میں نزولِ مسیح کی روایات کو قابلِ اعتماد اور ان کے ماننے کو ایمان کا تقاضا قرار نہیں دیا ہے؟ صحیحین (بخاری و مسلم) کی متفق علیہ روایات اور دیگر کتابوں کی صحیح احادیث بالمعنی نقل ہوئی ہیں یا باللفظ؟ باللفظ تو شاید چند ہی ہوں، سب بالمعنی ہی ہیں۔ ان بالمعنی روایات میں محدثین نے، اسلاف نے یا ائمہ کرام نے محض اس بنیاد پر احادیث کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ہے؟ مان کر نہ ماننے والی روش کا مظہر، تیسرا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’3۔نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ایک پیش گوئی کے طور پر سیدنا مسیحعلیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری پر اعتقاد رکھتے ہوئے یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ عقیدے کا مسئلہ نہیں، یعنی کوئی ایسی بات نہیں جسے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانیات کے ایک جزو کے طور پر بیان کیا ہو۔ ایمانیات کے معروف اور مسلمہ اجزا کے ساتھ موازنے سے اس مسئلے کی یہی نوعیت واضح ہوتی ہے، مثلاً: اﷲ کی صفات، تقدیر، رسالت، ختمِ نبوت، قیامت وغیرہ۔ ان تمام عقائد پر اسلام کے اعتقادی و عملی نظام کی بنیاد ہے اور اُن میں سے کسی ایک کو بھی اپنی جگہ سے ہٹانے سے یہ پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، اس کے برخلاف احادیث میں بیان ہونے والے مستقبل