کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 248
سے اگر کچھ اشکالات پیدا کیے جائیں تو ان کو دور کرنا ہے یا اشکالات کی اہمیت کو اُجاگر کرنا؟ مان کر اشکالات کو اہمیت دینا، یہ ماننے کا کون سا طریقہ ہے؟ پھر کون سی بات ہے جس میں اشکالات پیدا نہیں کیے جا سکتے یا نہیں کیے گئے؟ کیا عقیدۂ آخرت کے بارے میں منکرین کی طرف سے اشکالات پیش نہیں کیے جاتے؟ وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں اشکالات پیدا کرنے والوں کی کمی ہے؟ کیا واقعۂ معراج کی بابت اشکالات پیدا نہیں کیے جاتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس، بے شمار مسائل میں اشکالات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ کیا اشکالات پیدا کرنے والوں نے قرآنِ کریم کی بیان کردہ بہت سی حقیقتوں پر اعتراضات نہیں کیے اور آج بھی نہیں کر رہے ہیں؟ ماننے والوں کی ذمے داری کیا ہے؟ اشکالات کی وضاحت اور اُن کا بے حیثیت ہونا ثابت کرنا یا ان کو اُجاگر کر کے ان کی اہمیت کو بڑھانا؟ آپ ماننے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اور ’’اشکالات‘‘ کا ہَوّا بھی کھڑا کر رہے ہیں؟ ھذا لعمري في القیاس بدیع۔ انکار کی گنجایش پیدا کرنے کے لیے عزیز موصوف کی مزید گوہر افشانی یا کاوش!! ’’ان (اشکالات) کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں، خاص طور پر جب کہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کے سوئے فہم کا شکار ہوجانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔‘‘[1] اہلِ علم اس اقتباس سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اقرار ہے یا انکار؟
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۵)