کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 247
بَرْزَخٌ لاَّ یَبْغِیٰنِ} کا مصداق ہیں، لیکن انسان فن کارانہ مہارت اور چابک دستی کے باوجود اس طرح کرنے پر قادر نہیں ہے۔ عمار صاحب بھی ان دونوں لہروں کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے تو یقینا ہاتھ پیر مار رہے ہیں، لیکن وہ ان کے درمیان ’’برزخ‘‘ (پردہ) قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اقرار اور انکار کا یہ ملا جلا منظر بھی ملاحظہ ہو۔ پہلے، ان کے اقتباس سے انکار کے پہلو: ٭ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات پیش آتے ہیں۔ (وہ کیا ہیں؟) ٭ مثلاً: قرآنِ مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صَرفِ نظر کرنا (کیا احادیث کی صراحت اور احادیث کا قابلِ اعتماد (مستند) ہونا کافی نہیں ہے؟ کیا ہر عقیدے یا حکم کی صراحت قرآن میں ہے؟) ٭ متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا (کیا ایسے بعض امور کے ظاہری تعارض کو (اگر واقعی ہوں) معقول توجیہ کر کے دور کرنا ضروری ہے یا ان کو اہمیت دے کر مستند احادیث میں بیان کردہ پیش گوئی کو مشکوک ٹھہرانا، صحیح روش ہے؟) عمار صاحب کے اقتباس کے یہ تین ٹکڑے انکار کے مظہر ہیں یا اقرار کے غماز؟ ہر شخص اس کا فیصلہ کر سکتا ہے (بالخصوص بریکٹ میں دی گئی توضیح کے مطابق)۔ اب کچھ کچھ اقرار۔ لیکن انکار کی پرچھائیں کے ساتھ ملاحظہ ہو! ’’تاہم چونکہ بہ اعتبارِ سند یہ روایات قابلِ اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرینِ احتیاط ہے۔‘‘ اس عبارت میں اقرار بھی ہے اور انکار بھی۔ جب ایک بات قابلِ اعتماد روایات سے ثابت ہو تو ایک مسلمان کا فرض اس کو ماننا ہے اور منحرفین کی طرف