کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 246
مستند اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس لیے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح، اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان کا تقاضا ہے۔‘‘[1] دیکھ لیجیے! کتنی صاف اور واضح بات ہے، روایات کے مستند اور قابلِ اعتماد ہونے کا اعتراف ہے اور اس کو ماننا رسالتِ محمدیہ پر ایمان رکھنے کا تقاضا بھی۔ لیکن اس کے بعد گریزپائی یا انحراف یا رجعت قہقریٰ کا منظر بھی ملاحظہ ہو! ’’2۔ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات یقینا پیش آتے ہیں، مثلاً: قرآن مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صَرفِ نظر کرنا اور متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا۔ تاہم چونکہ بہ اعتبارِ سند یہ روایات قابلِ اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرینِ احتیاط ہے۔ ان کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں۔ خاص طور پر جب کہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کا سوئے فہم کا شکار ہوجانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔‘‘ یہ پورا اقتباس {مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ} کا مظہر ہے، یعنی اقرار اور انکار کے آبِ شیریں اور آبِ تلخ یا قرآن کے الفاظ میں {عَذْبٌ فُرَاتٌ} اور {مِلْحٌ اُجَاجٌ} کی لہریں ساتھ ساتھ رواں ہیں۔ اﷲ نے تو اپنی قدرتِ کاملہ سے ان دونوں متضاد لہروں کو باہم ملانے سے روکا ہوا ہے اور وہ {بَیْنَھُمَا
[1] ’’الشریعہ‘‘ خصوصی اشاعت (ص: ۱۸۴، جون ۲۰۱۴ء)