کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 243
ٹیسٹ کو ثبوتِ جرم میں ایک قرینہ یا ضمنی شہادت کے طور پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی بنیاد پر کسی مجرم کو زنا کی سزا نہیں دی جا سکتی، جو سو کوڑے اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم ہے۔ یہ سزا چار گواہوں کے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی۔ قرائن وشواہد کی بنیاد پر وہ کوئی سی بھی تعزیری سزا کا مستحق تو ہو سکتا ہے، لیکن رجم یا کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہوگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی، جس میں جدید و قدیم دونوں قسم کے علوم کے ماہرین شامل ہیں، اپنے ۱۹۱ ویں اجلاس (منعقدہ ۲۸۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۳ء) میں دیگر اہم معاملات میں سفارشات پیش کیں، وہاں زیرِ بحث ٹیسٹ کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کی خبر ملاحظہ ہو: ’’اسلام آباد۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ زنا بالجبر کے معاملے میں ڈی، این، اے ٹیسٹ بطورِ شہادت قابلِ قبول نہیں، البتہ اسے ضمنی شہادت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ زنا بالجبر میں ڈی، این، اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ زنا ایک ایسا جرم ہے کہ جس کے ثبوت کے لیے بہت احتیاط ضروری ہے، ڈی، این، اے ٹیسٹ وہاں کافی نہیں ہے۔‘‘ اس فیصلے کی ایک واضح دلیل ہمیں ایک حدیث میں ملتی ہے اور اس کا تعلق بھی عہدِ رسالت کے ایک واقعۂ لعان ہی سے ہے۔ ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور اس شخص کا نام بھی بتلایا، جس کے ساتھ ان کی بیوی نے یہ کام کیا تھا، ان کا نام شریک بن سحماء تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروا دیا اور یوں ان کے درمیان جدائی ہوگئی۔ اس کے بعد