کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 240
دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر زنا کا جھوٹا الزام لگا سکتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ عورت انکارِ زنا میں سچی ہو اور بچہ صحیح النسب ہو، لیکن ہمارے خیال میں ایسا عام طور پر ممکن نہیں ہے۔ کوئی خاوند اپنی بیوی پر ایسا الزام عائد نہیں کرتا۔ شبہہ تو ظاہر کر سکتا ہے اور کئی کرتے ہیں، لیکن سچ مچ الزام عائد کر کے لعان کے لیے تیار ہوجائے، ایسا نہایت مشکل ہے کہ وہ الزام لگانے میں جھوٹا بھی ہو اور لعان بھی کر لے۔ لعان کرنے والا خاوند کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ ہاں عورت انکارِ زنا میں جھوٹی ہو سکتی ہے اور بالعموم وہ جھوٹی ہی ہوتی ہے، لیکن اقرار کی صورت میں ذلت و رسوائی کے علاوہ حدِ رجم کا بھی اس کو خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے لعان کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہی کیا ہے، باپ کے ساتھ اس کے نسب کے امکان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ صحیح مسلم میں دو واقعے مذکور ہیں۔ ایک واقعہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس کے خاوند نے لعان کیا، وہ حاملہ تھی، اس کا وہ بیٹا (پیدا ہونے کے بعد) اپنی ماں کی نسبت ہی سے بلایا جاتا تھا۔ پھر یہی سنت جاری ہوگئی کہ وہ بیٹا ہی ماں کا وارث اور وہ ماں اس کی وارث ہوگی۔ ’’وَکَانَتْ حَامِلًا، فَکَانَ ابْنُھَا یُدْعیٰ إِلٰی أُمِّہِ، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ إِنَّہُ یَرِثُھَا وَتَرِثُ مِنْہُ مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَھَا‘‘[1] دوسرے واقعے میں ہے، ایک آدمی نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی سے لعان کیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروا دی۔ (( وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّہٖ )) [2] ’’اور بچے کا الحاق ماں کے ساتھ کر دیا۔‘‘
[1] صحیح مسلم، باب اللعان، رقم الحدیث (۱۴۹۲) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۴۹۴)