کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 238
ہی کا ہے تو بچے کے نسب کو اس سے ثابت قرار دینا درست ہوگا؟ ’’میرا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ عورت کا یہ مطالبہ درست اور اس کو وزن دینا مقاصدِ شریعت کے عین مطابق ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے لعان کے بعد بچے کے نسب کو شوہر سے منقطع کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے، اس کا مقصد بدیہی طور پر یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو تو بھی عورت کو اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزام کی صفائی کا موقع نہ دیا جائے اور بچے کو اپنے نسب کے ثبوت کے حق سے محروم رکھا جائے۔ دورِ قدیم میں چونکہ تحقیقِ نسب کا کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ میسر نہیں تھا، اس لیے شریعت نے اتنا ہی حکم دینے پر اکتفا کی جو نصوص میں بیان ہوا ہے۔ تاہم اگر آج ایسا قابلِ اعتماد ذریعہ موجود ہو تو عورت اور بچے، دونوں کے حق کے تحفظ کے لیے اس سے مدد لینا شریعت کے مقصد اور منشا کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا۔۔۔۔ (لہٰذا) اگر بیوی الزام کا انکار کرتے ہوئے سائنسی ذرائع کی مدد سے نسب کی تحقیق کا مطالبہ کرے اور طبی تحقیق سے اس کا دعویٰ درست ثابت ہوجائے تو بچے کے نسب کو اس کے باپ سے تسلیم کیا جائے۔‘‘[1] ہم عرض کریں گے کہ عزیز موصوف کا یہ ’’اجتہاد‘‘ ان منحرفین اور سیکولر لابی کی ہم نوائی کے علاوہ تین مفروضوں پر قائم ہے: اول یہ کہ شریعتِ اسلامیہ ابدیت اور کاملیت کے وصف سے محروم ہے اور اس میں بعد میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا کوئی حل نصوص کے
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۴)