کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 236
نہیں ہے؟ پھر اس کے لیے چار گواہوں کی پابندی کیوں ضروری نہیں؟ قرآن کریم کی ان واضح آیات کے بعد حدیث ملاحظہ ہو۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا: اے اﷲکے رسول! ’’إِنْ وَجَدْتُّ مَعَ امْرَأَتِيْ رَجُلًا اُمْھِلُہٗ حَتّٰی آتِيَ بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَائَ‘‘ ’’اگر میں (اپنی آنکھوں سے) اپنی بیوی کے پاس کسی آدمی کو پا لوں تو کیا میں اس شخص کو اس وقت تک مہلت دوں (چھوڑے رکھوں) جب تک میں چار گواہ نہ لے آؤں؟۔‘‘ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: (( نَعَمْ )) [1] ’’ہاں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر بھی اپنی بیوی پر زنا کا الزام عائد کرے گا یا بہ چشم خود بھی ملاحظہ کرے گا، تب بھی اس کو اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بدچلن بیوی کو سزا دلوا کر کیفرِ کردار تک پہنچائے تو عدالت میں چار گواہ پیش کیے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ لعان کی صورت: البتہ شوہر کے لیے، چونکہ بیوی کی یہ نازیبا حرکت دیکھ لینے کے بعد، برداشت کرنا نہایت مشکل، بلکہ ناممکن ہے، لیکن چار گواہ بھی پیش کرنا کارے دارد ہے، جب کہ چار گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں زنا کا الزام لگانے والے کے لیے قذف کی حد (اسّی کوڑے) ہے۔ تاہم شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کر لے۔ اس صورت میں دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی اور دونوں دنیوی سزا سے بچ جائیں گے، خاوند کو قذف (تہمت) کی اور عورت کو زنا کی حد نہیں لگے گی۔
[1] صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب اللعان، رقم الحدیث (۱۴۹۸)