کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 235
چار گواہ پیش کرنے کا پابند نہیں کیا ہے۔‘‘[1] یہ کون سی شریعت ہے، جس کے حوالے سے عمار صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں؟ شریعتِ اسلامیہ تو الزامِ زنا کے اثبات کے لیے چار گواہوں کو ضروری قرار دیتی ہے اور شریعتِ اسلامیہ نام ہے قرآن و احادیثِ صحیحہ کا۔ قرآن میں تین مقامات پر اس کا ذکر ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن میں تو عام الزام لگانے والوں کے لیے یہ حکم ہے، خاوند اگر الزام لگائے تو اس کے لیے اس شرط کی پابندی نہیں ہے تو یہ قرآن فہمی بھی قابلِ ماتم ہے۔ قرآن کے الفاظ پر غور فرمائیں: {وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ} [النساء: ۱۵] ’’تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرے تو تم اپنے (مسلمان مردوں میں سے) چار گواہ پیش کرو۔‘‘ کیا ’’اپنی عورتوں‘‘ میں ایک مسلمان کی اپنی وہ بیوی شامل نہیں ہوگی، جو بے حیائی (فاحشہ) کی مرتکب ہوگی؟ پھر شوہر کے لیے بھی چار گواہ کی پابندی کیوں نہیں ہوگی؟ دوسری آیت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً} [النور: ۴] ’’وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر (زنا کا) بہتان لگائیں، پھر چار گواہ پیش نہ کریں تو انھیں اسّی کوڑے مارو (قذف کی سزا دو)۔‘‘ کیا محصنات (پاک دامن عورتوں) میں ایک مسلمان کی اپنی بیوی شامل
[1] ’’الشریعہ‘‘ (ص: ۱۸۳)