کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 228
پھر وہ کیوں اس ظلم اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ اس نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ گھڑا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو اپنا ’’وصی‘‘ بنایا تھا، اس لیے آپ کی وفات کے بعد خلافت کے حق دار سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، خلفائے ثلاثہ نے یہ حق غصب کر کے نہ صرف ظلم کیا، بلکہ اپنے کفر و نفاق کا بھی اظہار کر دیا۔ نعوذ باللّٰه من ذلک الھفوات۔ شاید کوئی شخص کہے کہ شیعہ تو مسلمان ہی نہیں، کسی مسلمان کی مثال پیش کریں۔ تو لیجیے! ایک مسلمان مفکر کی مثال سن لیجیے! مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم نے جب ’’رسوائے زمانہ‘‘ کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ لکھی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہدفِ طعن بنانے کے لیے کئی مفروضے قائم کیے، مثلاً: انھوں نے ’’طلقا‘‘ کو بڑے بڑے عہدوں کے منصب پر فائز کر دیا، ان کا سیکرٹری مروان بن حکم جیسا شخص تھا، انھوں نے بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں اپنے خاندان کے لوگوں کو بطورِ عطیہ دیں، ان کے مقرر کردہ گورنران بدکرار تھے، وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کے ان کے پاس کیا ’’دلائل‘‘ تھے؟ کوئی ایک بھی صحیح روایت نہیں تھی اور نہ ہے، بلکہ تاریخ ہی کی دوسری صحیح روایات سے ان کی تردید ہوتی ہے، لیکن انھوں نے مفروضات و مزعومات قائم کیے تھے، ان کا اثبات ان ہی کذاب راویوں کی بیان کردہ روایات سے ہوسکتا تھا، اس لیے انھوں نے دونوں قسم کی روایات میں سے ’’حسنِ انتخاب‘‘ کی یہ مثال پیش کی کہ ہر وہ روایت تو قبول کر لی، جس سے ان کی یہ ’’ضرورت‘‘ پوری ہوجائے کہ سیدنا عثمان کی شخصیت داغ دار ہوجائے اور اس کے برعکس دوسری صحیح روایات کو جو صحابہ کے مجموعی کردار کے عین مطابق تھیں، نظر انداز کر دیں۔ گویا ع