کتاب: فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ - صفحہ 222
اُمتِ مسلمہ کی پوری تاریخ میں منفرد ہیں، حتی کہ اپنے ’’استاذ امام‘‘ امین اصلاحی سے بھی مختلف۔ یہ بات انھوں نے شرعی عدالت میں مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث کرتے ہوئے بڑے فخر سے راقم کی موجودگی میں کہی تھی۔ گو بعد میں انھوں نے اپنی تحریر میں اس کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ عمار صاحب کی رائے دراصل وہی ہے جو غامدی صاحب نے اختیار کی ہے، جو ؎ اُن ہی کی محفل سنوارتا ہوں، چراغ میرا ہے رات ان کی اُن ہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زباں میری ہے بات اُن کی کے مصداق ہے۔ اﷲ تعالیٰ ’’مَن شَذَّ، شُذّ۔۔۔‘‘ کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے۔ اب ہم پہلے صحابۂ کرام اور مفسرینِ اُمت کی تفسیر کی روشنی میں ان دو آیات کا وہ مفہوم بیان کرتے ہیں جو سیدنا عبداﷲ بن عباسرضی اللہ عنہم سمیت تمام ائمۂ تفاسیر نے تھوڑے سے جزوی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے بعد وہ چار گھپلے یا انحراف بیان کریں گے، جن کا ارتکاب عمار صاحب نے غامدی کی اندھی تقلید میں کیا ہے۔ 1 سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ {اَلْفَاحِشَۃ} سے مراد زنا ہے۔ 2 اس کی مرتکب عورت کے لیے سزا کا بیان ہے۔ 3 یہ ابتدائے اسلام میں جرمِ زنا کی عبوری سزا ہے۔ 4 اس کی مستقل سزا کا وعدہ ہے۔ 5 مطلق زنا کی سزا ہے، اس کا ارتکاب کسی نے ایک دفعہ کیا ہے یا زیادہ مرتبہ، اس کا نہ آیت میں ذکر ہے اور نہ اس کی وجہ سے زناکاروں کی دو قسموں اور ان کی الگ الگ سزاؤں کا ذکر ہے۔